رابطہ


Abdulrehman.joyia2021/07/21 08:15
Follow

اللہ تعالی سے تعلق پیدا کریں

Meditation

*============================*

🌹 *مُراقبات* 🌹


رابطہ درحقیقت اللہ کریم کی طرف سے ہوتا ہے۔ وہ اللہ کریم جب چاہے، جسے چاہے، اس سے نواز دے۔ بندہ تو صرف اپنی تمام توجہ اس طرف مبذول کر سکتا ہے۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے کہ منجانب اللہ بندے کو نصیب ہو۔ جیسے ارشاد ہے :

*وَّ رَبَطۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِھِمۡ اِذۡ قَامُوۡا فَقَالُوۡا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡض* ( ِ14: الکھف)

کہ ہم نے اصحابِ کہف کے قلوب سے رابطہ فرمایا۔ جب انہوں نے کہا ہمارا رب وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ یعنی رابطۂِ الٰہی کی وجہ سے وہ جراتِ رندانہ نصیب ہوئی کہ بادشاہ اور قوم کے مقابلہ میں وہ توحید پر جم گئے۔ یا اُمِ موسٰی علیہ السلام کے بارے ارشاد ہوتا ہے :

*اِنۡ کَادَتۡ لَتُبۡدِیۡ بِهٖٖ لَوۡلَاۤ اَنۡ رَّبَطۡنَا عَلٰی قَلۡبِھَا لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ* (القصص: 10) کہ اگر ہم موسٰی علیہ السلام کی والدہ کے قلب سے رابطہ نہ کرتے کہ وہ اپنے ایمان و یقین پر ثابت قدم رہیں تو وہ انہیں دریا میں ڈالنے کے بعد یہ راز ، راز نہ رکھ پاتیں۔ اسی طرح صحابہ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے ارشاد ہے :

*وَ لِیَرۡبِطَ عَلٰی قُلُوۡبِکُمۡ وَیُثَبِّتَ بِهِ الۡاَقۡدَام* َ(الانفال : 11) کہ ہم نے تمہارے قلوب سے رابطہ کیا کہ تم قدم جما کر لڑو۔ اور جگہ پر بھی ارشادات ہیں۔ مفہوم سب کا ایک ہی ہے کہ اللہ کریم سے ایک خاص تعلق نصیب ہو جاتا ہے جس میں ثابت قدمی اور اعلٰی درجے کا یقین نصیب ہوتا ہے اور کوئی طاقت قدموں میں لرزہ پیدا نہیں کر سکتی جیسے اصحابِ کہف نے وقت اور قوم و حکومت کی ساری طاقت کی پرواہ نہ کی یا والدہ موسٰی علیہ السلام نے الہام و القاء پر ایسا یقین کامل پایا کہ بچے کو دریا میں ڈال دیا اور پھر اس راز کو راز ہی رکھا۔ یعنی ایک سکینہ کا نزول ہوتا ہے۔

ایسے ہی سالک جب تمام توجہ اور سب لطائف کے انوارات قلب پر لاکر متوجہ الی اللہ ہوتا ہے تو اسے رابطہ نصیب ہوتا ہے اور وہ انوارات قلب سے اٹھ کر سیدھے عرشِ عظیم تک جاتے ہیں اور یوں ذکر بھی ایسے ہوتا ہے کہ لفظ *"اللہ"* تو قلب میں جائے مگر جب سانس خارج ہو تو *"ھُو"* کی ٹکر عرشِ عظیم سے لگے۔ اس طرح انوارات کا ایک بہت روشن راستہ بن جاتا ہے جو سالک کے قلب سے عرش تک ہوتا ہے اور روح کے عالمِ بالا کے سفر کا سامان ہو جاتا ہے۔ اس پر بہت زیادہ توجہ اور محنت کی جاتی ہے کہ رابطہ ہی کی قوت روح کو قوتِ پرواز عطا کرتی ہے کہ روح کا اصل وطن تو عالمِ امر ہے جو نو عرشوں سے اوپر ہے۔ لہٰذا وہ اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے اور یہی کامیابی ہے کہ دارِ دُنیا کی آلودگیوں سے نکل کر وہ سلامتی کے ساتھ اپنے اصل مقام پر پہنچ کر آگے وصالِ الٰہی کی طرف بڑھے۔

چناچہ عرشِ عظیم کے ساتھ رابطہ ہی پہلی کاوش ثابت ہوتا ہے۔ اگرچہ ہوتا تو منجانب اللہ ہے۔ جیسے ارشاد ہے:

*یُّحِبُّھُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَهٗ* (المائدہ: 54) کہ اللہ کریم ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں کہ بندہ کب محبت کر سکتا ہے جب تک وہ بے نیاز نہ کرے۔ لیکن اس کا بھی سلیقہ ہے : *فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ* (آلِ عمران :31) کہ تم میرا (یعنی رسول اللہ ﷺ کا) اتباع کرو تو اللہ تم سے محبت فرمائے گا۔

اس سے مصداق یہ آپ ﷺ ہی کی اطاعت کا ہے کہ ذکرِ قلبی کی تاکید و تلقین بے شمار ہے۔ پھر اس کے بعد جب متوجہ الی اللہ ہوتا ہے تو یہ اتباعِ سُنت ہے۔ طریقہ اس کا یہ ہے کہ سانس کو فطری طور پر چلنے دے جو پہلے تو سات لطائف بر عمدًا اور تیزی سے چلتی ہے۔ پھر کچھ دیر قلب پر بھی لگا کر کہ تمام گرمی ، حرارت ، روشنی اور انوارات یکجا قلب پہ جمع ہو جائیں تو متوجہ الی اللہ ہو۔ اب فطری طور پر چلتی سانس کے ساتھ ، ہر اندر جانے والی سانس کے ساتھ لفظ *"اللہ"* قلب میں اترے اور ہر خارج ہونے والی سانس کے ساتھ *"ھُو"* کی ضرب عرشِ عظیم سے جاکر لگے تو یہ انوارات اللہ کریم سے رابطہ عطا فرما دیتے ہیں کہ قلب سے لے کر عرشِ عظیم تک انوارات کی ایک سڑک کہہ لیجئے یا ایک بہت وسیع مضبوط اور روشن راستہ کہہ لیجئے ، بن جاتا ہے اور یوں ایک خاک نشیں عرشِ عظیم سے رابطہ میں ہو جاتا ہے۔ جب یہ مضبوط ہو جاتا ہے اور لطائف روشن ہو کر اس کی قوت بنتے ہیں تو اس کے بعد مراقبۂِ احدیت کرایا جاتا ہے ۔۔۔۔


*============== ( ان شآءاللہ جاری ہے)*abdul.rehman

Share - رابطہ

Follow Abdulrehman.joyia to stay updated on their latest posts!

0 comments

Be the first to comment!

This post is waiting for your feedback.
Share your thoughts and join the conversation.