Chapter 1
ماں باپ
یہ صرف دو لفظ ہی نہیں بلکہ دنیا میں سب سے خوبصورت رشتے ہیں سب سے خوبصورت احساس
بہت خوش نصیب ہوتی ہے وہ اولاد جنہیں ماں باپ دونوں کا پیار ملتا ہے میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہوتی اگر میری ماں زندہ ہوتی دنیا میں اولاد کے لیے صرف ماں باپ کا موجود ہونا ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ انہیں اپنی موجودگی کا احساس دلانا بھی لازمی ہوتا ہے دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے ماں یا باپ ہیں موجود ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اکیلے ہیں میں بھی انہی میں سے ایک ہوں. چار سال کی تھی تو میری ماں اس دنیا سے چلی گئی
پاپا تھے تو سہی پر پتہ نہیں کہاں انہیں ہماری کوئی فکر ہی نہیں تھی ہم کہاں ہیں کیسے ہیں گھر کے لوگ ہمارے ساتھ کیسا رویہ رکھ رہے ہیں انہیں کوئی احساس نہیں تھا انہوں نے دوسری شادی کی دوسری ماں ائی انہوں نے اپنا کام کیا فرض لبھال میں رکھا لیکن پیار شفقت وہ محبت پرورش نہ دے پائی جو اصلی ماں دیتی ہے دیکھتے دیکھتے اسی طرح 13 سال گزر گیا اوران سالوں میں میرا میرے پاپا کے درمیان اتنا فاصلہ ہو گیا کہ میں ان سے کسی قسم کی کوئی بات تک شیئر نہیں کر سکتی تھی میں ان سے ڈرنے لگ گئی تھی ان سے دور ہو گئی تھی ان کا کہنا تھا کہ باپ کا فرض صرف کمانا ہے اور اولاد پر روب رکھنا یہ پیار کرنا محبت کا نہ شفقت دینا پرورش کرنا یہ ماں کا کام ہے باپ کا نہیں نہ جانے ان کی سوچ ایسی کیوں ہے ہمیں کسی بھی قسم کے کام کی اجازت نہیں اپنے ہی باپ سے پیسے مانگتے وقت مانگتے ہیں کیونکہ 10 سوال سننے کو ملتے ہیں کیوں کیوں چاہیے کیا کرنے ہیں کہاں خرچ کرنے ہیں کیا لینا ہے میرے پاس حرام کے پیسے نہیں ہیں کہ میں اپ لوگوں پر لگاؤں میرا اپ سب سے سوال ہے کہ ایسا کیوں ہے ہمارے ہاں اولاد کو کسی قسم کی پرائیویسی ہی اویلیبل نہیں ہے حالانکہ ایسا تو شریعت میں بھی اسلام میں بھی ہے کہ اولاد کو ان کی پرائیویسی ملنی چاہیے پر ہمارے سوسائٹی میں خیر سوسائٹی چھوڑیں اگر میرے میں اپنے گھر کی بات کرتی ہوں اکیلی بیٹھ جاؤں بیٹھی اکیلی کیوں بیٹھی ہو یہاں کیوں بیٹھی ہوئی ہے وہاں بیٹھو سب کے ساتھ جاؤ کیا کرتی ہو اکیلی بیٹھ کر خدارا میری سب والدین سے گزارش ہے کہ اپنی سوچ کو بدلے اپنی اولاد کو ٹائم دے تاکہ اپ کے اور ان کے درمیان کی فاصلے نہ رہے ان کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھیں تاکہ وہ اپنے دل کی بات اسانی سے اپ سے کہہ سکے اپنی دکھ تکلیفیں اپ کے ساتھ بانٹ سکیں میں جانتی ہوں بہت تکلیف ہوتی ہے جب اپ اپنی تکلیفیں دوسروں سے کیسے ایون کہ اپنے پیرنٹس سے بھی شیئر نہ کر سکے بس یہی وجہ ہے کہ اج کل کی جنریشن جذبات میں بہت کچھ کر جاتی ہوں جب وہ اپنی والدین سے کچھ شیئر نہ کر سکے تو وہ خود سے ہی کچھ نہ کچھ حل نکال کر بہت کچھ غلط کر بیٹھتی ہے میری ان تمام والدین سے گزارش ہے تو اپنی سوچ اور مرضی اپنی اولاد پر زبردستی تھوڑتے ہیں ضروری نہیں کہ ماں باپ کا ہر فیصلہ ہمیشہ ہی درست ہو اپنے بچوں کو سنے اور انہیں سمجھیں ان سے پوچھے کہ وہ کیا چاہتے ہیں بجائے کہ اپنی رائے ان پر تھوکے ابھی میرے الفاظ کسی کو برے لگی ہوں تو اس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں اور ریڈر سے گزارش ہے کہ کمنٹس میں کچھ غلط نہ بولے ہاں مگر اپنی اپنی رائے ضرور پیش کریں اور مجھے اپنی زندگی کے بارے میں بتائیں تاکہ میں اپ کے لیے بھی کچھ لکھ سکوں اگر ہو سکے تو میری باتوں کو اگے ضرور شیئر کیجئے گا
شکریہ
از قلم: وریشہ ماریہ