کھڑکی سے ٹیک لگائے، چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے ناجیہ ماضی کے دریچے وا کیے کہیں کھوئی ہوئی تھی۔وہ دسمبر کا ہی مہینہ تھا جب اس کی خنکی اس نے اپنے اندر تک محسوس کی تھی۔یہ ہی وہ دن تھے جب دھند میں لپٹے صبح و شام اس کے رگ و پے میں اس قدر اتر گئے تھے کہ اسے اپنے نقصان کا اندازہ ہی نہیں ہوا تھا۔دس سال گزر جانے کے باوجود جب بھی دسمبر آتا، ناجیہ کی زندگی کے اذیت بھرے لمحات تروتازہ کر جاتا۔ ناجیہ ایک بار پھر دس سال پہلے دسمبر میں پہنچ گئی۔۔
"خیریت سے جاؤ اور ابو بکر کو ساتھ لے کر آنا"
سکندر نے ناجیہ کو آپریشن تھیٹر لے جانے کے لیے نرسز کے حوالے کرتے ہوۓ کہا۔
ناجیہ سکندر کے دوسرے بچے کو جنم دینے جا رہی تھی۔پہلی بیٹی کے بعد دونوں میاں بیوی کو یقین تھا کہ اس بار ضرور اولاد نرینہ ہی ان کا مقدر ہوگی۔
آپریشن شروع ہوا۔ناجیہ جب تک اپنے حواسوں میں رہی دعائیں مانگتی رہی۔پھر کب غنودگی چھائی اور وہ کب دوا کے زیر اثر بے ہوش ہو گئی پتہ ہی نہیں چلا۔اس کی آنکھ کھلی تو وہ ہسپتال کے کمرہ میں موجود تھی۔وہ جلد از جلد جاننا چاہتی تھی کہ اس نے بیٹا یا بیٹی میں سے کس کو جنم دیا ہے۔مگر کمرے میں موجود اپنی والدہ کے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھ کر اس کو کچھ کھٹکا سا محسوس ہوا۔سکندر بھی نرس سے کچھ بحث میں مصروف تھے۔ایک لمحے کو وہ سمجھ نہیں پائی کہ کیا معاملہ ہے۔اس سے پہلے کہ وہ ہمت کر اپنی والدہ سے پوچھتی دوبارہ نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا اور وہ آنکھیں موندے دنیا سے بے خبر سو گئی۔
کچھ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی آنکھیں کھلنا شروع ہوئیں۔اب وہ مکمل ہوش میں تھی مگر اسے نہ تو اپنے بچے کی رونے کی آواز سنائی دی اور نہ ہی اپنی والدہ کے ہاتھوں میں نظر آیا۔اس نے ہمت کر کے اپنی ماں کو آواز دی جو اس کے قریب ہی بیٹھی تھیں۔ناجیہ نے اپنے بچے کے بارے میں دریافت کیا۔
"امی میرا بے بی کہاں ہے؟ وہ بیٹا ہے نا؟"
اس کی امی نے آنسو اندر ہی اندر پیے اور چہرے پر مسکراہٹ سجا کر اس کو بتایا "
بیٹا تمہارا بے بی بہت پیاری سی بیٹی ہے۔اور بس زرا چیک اپ کروانے چائلڈ سپیشلسٹ کے پاس لے گئے ہیں پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ابھی بس آ جاۓ گی تم آرام کرو"
امی کے اس جواب سے ناجیہ کی آنکھیں بھر آئیں لیکن ماں کو تو اپنی بیٹی بھی جان سے پیاری ہوتی ہے۔وہ اپنی بیٹی کو دیکھنا چاہتی تھی، ہاتھوں میں لینا چاہتی تھی،وقتی طور پر تو وہ چپ ہو گئی مگر دل جیسے ڈر سا گیا کہ ضرور کوئی بات ہے۔دوپہر سے شام ہو گئی مگر سکندر اس کی نومولود بیٹی کو لے کر واپس نہیں آۓ۔رات کو واپس آۓ بھی تو بے بی کے بغیر۔۔اب تو ناجیہ کو اور خوف محسوس ہونے لگا۔ سکندر نے آ کر اس کو سمجھایا کہ کوئی خطرے والی بات نہیں بے بی ویک ہونے کی وجہ سے نرسری میں رکھا ہے صبح لے آؤں گا۔ناجیہ شوہر کی بات سن کر زارو قطار رونے لگی اس کے اندر کی مامتا چیخ رہی تھی۔سکندر نے اس کو تسلی دی اور اپنی پہلی بیٹی مشعل کو جو تین سال کی تھی ناجیہ کی گود میں بٹھا دیا اور کہنے لگے
"ارے تم اس کو کیوں بھول رہی ہو۔کل سے تمہیں یاد کر رہی ہے۔اس کو سنبھالو دوسری والی بھی صبح آ جاۓ گی۔اور جب دو سنبھالو گی نا تو عقل ٹھکانے آ جاۓ گی"
سکندر نے اس کا موڈ فریش کرنے کی کوشش کی۔
ناجیہ مشعل کو گود میں لے کر سونے کی کوشش کرنے لگی مگر آپریشن کی وجہ سے اس میں ہمت نہیں تھی کہ زیادہ دیر تک اس کو پاس رکھے۔
تھوڑی ہی دیر میں ناجیہ دوائیوں کے زیر اثر پھر سے نیند کی آغوش میں چلی گئی۔اس کو سوتے دیکھ کر سکندر اور اس کی والدہ نے سکھ کا سانس لیا۔ایسا لگ رہا تھا کہ ان کے لیے مزید اس کے سوالوں کا جواب دینا مشکل ہو رہا تھا۔
اگلے دن ناجیہ کچھ بیٹھنے کے قابل ہوئی۔سکندر اس کی دل جوئی کو اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ناجیہ نے بہت پیار سے اپنی بیٹی کے بارے میں پوچھا
"سکندر!آپ مجھ سے کیا چھپا رہے ہیں؟ہماری بیٹی ٹھیک تو ہے نا؟وہ کہاں ہے؟ واپس کب آئے گی؟"
"بس تھوڑی سی بیمار ہے۔لے آؤں گا تم پریشان مت ہو۔پہلے ہی تمھارا بی پی ہائی ہے"
سکندر نے اسے بہلانا چاہا. مگر ناجیہ آج سب جاننا چاہتی تھی
"نہیں سکندر! کچھ بات تو ہے جو آپ اور امی مجھ سے چھپا رہے ہیں۔پلیز بتا دیں ورنہ سوچ سوچ کر ویسے ہی میرا بی پی ہائی ہو جائے گا"
سکندر نے بھرائی آنکھوں سے کہا
"اپنی بیٹی کے بارے میں جاننا چاہتی ہو تو پہلے دل مضبوط کرنا پڑے گا۔وعدہ کرو تم رو گی نہیں"
"نہیں روؤں گی سکندر۔ آپ مجھے بتائیں ہماری بیٹی کہاں ہے؟"
ناجیہ نے التجائیہ لہجے میں کہا
"ناجیہ! ہماری بیٹی چلڈرن ہسپتال لاہور میں ہے۔بظاہر تو وہ ہماری بیٹی ہے لیکن نہ تو وہ بیٹی ہے اور نہ ہی بیٹا۔ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ وہ ایسے زندہ نہیں رہ سکتی۔آپریشن کر کے اس میں کچھ نالیاں وغیرہ فٹ کرنا پڑیں گی جس سے اس کا اندرونی نظام کچھ عرصے کو بحال کیا جا سکے گا۔مشکل تو یہ ہے کہ اس کو پیدائش سے پہلے ہی نمونیہ بھی ہوا ہے جس سے آپریشن میں دقت آ رہی ہے۔اسی لیے اس کا آپریشن دو دن بعد ہے"
سکندر آنکھوں میں آنسو لیے روانی سے سب ناجیہ کو بتانے لگا۔جوں جوں وہ سنتی گئی روتی گئی اور بے یقینی کی سی کیفیت میں سکندر کو دیکھتی گئی۔اسے لگا کہ اس کا دل پھٹ جائے گا۔ اس نے ایسا تو نہیں سوچا تھا۔اس کی سانس اٹکنے لگی تھی۔رفتہ رفتہ اس کی طبیعت بگڑنے لگی۔بی پی شوٹ کر گیا تھا۔نرس نے آ کر دوا دی اور انجکشن لگایا تو ناجیہ کو دنیا و مافیا کی خبر نہ رہی۔ماں کا دل آہستہ آہستہ سکون پانے لگا تھا۔وہ بالکل خاموش ہو گئی تھی مگر وہ اپنی بیٹی کو دیکھنا چاہتی تھی۔ملنا چاہتی تھی۔تیسرے دن بیٹی کے بغیر ہی گھر پہنچی۔اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
چار دن بعد جب سکندر اپنی بیٹی کے پاس جانے لگا تو ناجیہ نے بھی جانے کو کہا
"تم کیسے جا سکتی ہو؟ ابھی سفر تمھاری صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔تم یہیں رہو۔میں خود دیکھ آتا ہوں۔ان شاءاللہ اسے جلد واپس لاؤں گا"
سکندر نے پیار سے سمجھایا مگر ناجیہ بضد تھی۔وہ ساتھ جانا چاہتی تھی۔سکندر کو ناجیہ کی ضد کے اگے ہار ماننا پڑی۔کچھ احتیاطی تدابیر کے بعد ناجیہ اور سکندر نے بیٹی سے ملنے کو رخت سفر باندھا۔
گاڑی میں کھڑکی سے باہر جھانکتے درختوں کو تیز رفتاری سے پیچھے کی طرف جاتے دیکھ کر ناجیہ کا دل چاہ رہا تھا کہ اڑ کر ہسپتال پہنچ جائے مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔موبائل پر بجنے والی رنگ ٹون نے اس کے خیالوں کا تسلسل توڑا۔بے دلی سے فون ریسیو کیا تو کانوں میں بھائی کی آواز سنائی دی جو اس وقت چلڈرن ہسپتال میں اس کی بیٹی کے پاس تھے۔
"سکندر کہاں ہے ناجیہ؟" بھائی نے پوچھا
ناجیہ نے بتایا کہ وہ ڈرائیونگ کر رہے ہیں۔آپ مجھے بتا دیں۔مگر بھائی نے گاڑی روک کر بات کرنے کو کہا۔سکندر نے گاڑی روکی اور بھائی سے بات کرنے کو فون لیا۔
"سکندر! تمھیں بھی ہمت کرنی ہے اور ناجیہ کو بھی سنبھالنا ہے"بھائی نے سکندر سے کہا تو اس کا دل دہل گیا
"بھائی! بتائیں تو سہی کیا ہوا ہے"
سکندر نے پوچھا
"سکندر! وہیں سے واپس گھر چلو۔ہم تمھاری بیٹی کو لے کر گھر آ رہے ہیں۔"بھائی نے جواب دیا
"مگر کیوں بھائی؟ میری بیٹی کیسی ہے؟ آپریشن کیسے اتنی جلدی ہو گیا؟" سکندر نے ڈرتے ڈرتے پوچھا
"تمھاری بیٹی اب مکمل صحت یاب ہو گئی ہے۔مسلسل سوئیوں اور نالیوں کی تکلیف سے چھٹکارا پا گئی ہے۔پرسکون ہے۔تم اور ناجیہ بھی پرسکون رہنا"
سکندر کی آنکھوں سے یکدم بہتے آنسو اور اس کے چہرے پر پھیلے تاثرات ناجیہ کو انے والی قیامت کا عندیہ دے گئے۔۔
"ماما! مجھے نوڈلز بنا دیں بھوک لگی ہے"
مشعل کی آواز ناجیہ کو ماضی کے دسمبر سے واپس کھینچ لائی۔اس کی آنکھیں بھیگی تھیں۔چہرا پونچھتے وہ مشعل کی طرف متوجہ ہوئی
"جی ماما کی جان! چلو میں آتی ہوں"
ہر سال کی طرح یہ دسمبر بھی اس کے لیے سلگتا ہوا دسمبر تھا جس کی یادیں اس کو جھلسا دیتی تھیں۔یہ آگ اس کے اندر شاید آخری سانس تک رہنی تھی کیونکہ وہ ایک ماں تھی۔
0 comments
Be the first to comment!
This post is waiting for your feedback.
Share your thoughts and join the conversation.