janoon


manoo2022/09/01 04:19
Follow
janoon

جنون

( ایک جن ذادی کے عشق کی داستان)

قسط نمبر دو

از مانو راجپوت

-------------+++++++++++++++++-------------

یہ ہے نور حویلی جسے سب نور محل کہتے ہیں جہاں تاشفین صاحب اپنے خاندان کے ساتھ مقیم ہیں اور مسجد کے سامنے موجود درگاہ کے منتظم اعلی درگاہ کی تمام تر ذمداری انہی کے گھرانے کے سپرد تھی تاشفین صاحب تین بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے نُور محل کے لئے ایک بات مشہور تھی کہ یہ حویلی آسیب زدہ ہے اسی لئے تو یہاں ہونے والی بیبیوں کے لڑکے بچتے نہیں ہیں پہلے تو اولاد ہی نہیں بچتی تھی مگر پھر صوفی صاحب کی دُعا سے لڑکیاں تو بچنے لگیں مگر لڑکے پھر بھی نہیں بچتے تھے محض پانچ ماہ کی مدت پوری کرتے اور اِنتقال کر جاتے تاشفین صاحب بھی جب پیدا ہوئے تو اُن کے والد نور محمد صاحب نے اُنھیں حویلی سے دور بھیج دیا اور وہ اپنی جوانی تک حویلی سے دور ہی رہے اُن کا نکاح بھی خاندان سے باہر ہی کیا گیا کیونکہ خاندان والے اپنی بیٹیوں کا رشتا بھی نور محل والوں کو دیتے ہوئے ڈرتے تھے تاشفین صاحب اپنے نکاح کے بعد ہی نور محل واپس آئے جب اُن کے والد نور محمّد صاحب بسترِ مرگ پر تھے والد کی وفات کے بعد تمام تر ذمداری تاشفین صاحب کے کندھوں پر آگئی اور وہ درگاہ اور کاروبار کے کاموں میں اتنے مگن ہو گئے کہ اپنی خوبصورت اور نئی نویلی بیوی کو بھی وقت دینا بھول گئے اور تین سال کا عرصہ کیسے گزرا پتا ہی نہ چلا۔۔

ایک شام جب سبھی بہنیں اور داماد دعوت پر حویلی آئے ہوئے تھے تو سب بہنوں اور ماں نے بھائی کی سونی گود کا شکوہ کر ڈالا کہ ہمارا ایک ہی بھائی ہے اور اُس کی اولاد دیکھنے کی خواہش بھی بہت ہے اور بہو بیگم ابھی تک دو بار اپنا بچہ گوان چُکی ہیں اور پتا نہیں ہم کہیں ترستے ہی نہ رہ جائیں بھائی کی اولاد کو کیوں نہ آپ دوسری شادی کر لیں جو حویلی سے دُور ہی رہے

جسے سن زینت بیگم بہت افسردہ نظروں سے تاشفین صاحب کو دیکھنے لگیں۔

اولاد ہونا نہ ہونا ہمارے اختیار میں نہیں یہ تو اللہ کے اختیار میں ہے اور ربّ نے مُجھے اولاد دینی ہوئی تو اِسی بیوی سے دے دے گا اور نہ دینی ہوئی تو پھر بھلے سے میں چار شادیاں بھی کر لوں تو نہیں ہو گی تاشفین صاحب نے ایک ایک لفظ چبا کر بولا جسے سُن سب ہی سمجھ گئے کہ تاشفین کو بات ناگوار گزری ہے اور سب خاموشی سے کھانا کھانے لگے۔

چند روز بعد نصرت بی بی تاشفین صاحب کی والدہ نے دوبارہ سے تاشفین سے ذکر کیا اولاد کا کہ اپنی زندگی میں کیا میرا اتنا بھی حق نہیں بیٹے کی اولاد دیکھ سکوں تاشفین صاحب ماں کی بات سن کر بولے علاج چل تو رہا ہے ماں جی اللّٰہ جلد آپ کی خواہش پوری کرے گا۔

بیشک بیٹا مگر دوا کے ساتھ دعا بھی بہت اثر کرتی ہے تُم بہو کو لے کر درگاہ کیوں نہیں جاتے صوفی صاحب کی دعاؤں میں بہت اثر ہے ولی اللّٰہ کی دُعاؤں میں بہت اثر ہوتا ہے یہ ہم سے زیادہ ربّ کے عبادت گزار ہوتے ہیں نصرت بی بی بہت پیار سے سمھجاتے ہوئے بولیں جس پر تاشفین صاحب مان گئے درگاہ جانے کے لئے

آگلی صبح تاشفین صاحب زینت بیگم کو لے کر درگاہ گئے صوفی صاحب اپنے آستانے میں تھے انہوں نے بہو بیگم اور تاشفین صاحب کو آستانہ میں ہی بلا لیا

اس سے پہلے کہ وہ کچھ بتاتے صوفی صاحب دونوں سے مخاطب ہوئے" ہم انسان بھی کتنے بےصبرے ہوتے ہیں ہمیں صبر ہی نہیں آتا جو ہوتا ہے اُس پر خوش نہیں ہوتے جو نہیں ہے اُس پر روتے رہتے ہیں ساری زندگی خوشی کو خود دھکیلتے رہتے ہیں اور اُسی کی تلاش میں بھی رہتے ہیں جس ربّ نے بنا مانگے ہمیں اپنے محبوبﷺ کا اُمتی بنایا ہم پر اتنی بڑی عنایت کی تو وُہ ہمارے مانگنے پر ہمیں کیوں کچھ نہیں دے گا بس دیر سویر ہو جاتی ہے مگر وہ سب کو نوازتا ہے" ویسے ہی وُہ تمہیں بھی اولاد کی نعمت سے نوازے گا عنقریب بس اُس کی رحمت سے نا اُمید مت ہو اور ایسا ہی ہوا چند روز بعد اللہ نے زینت بیگم کو کائنات کی سب سے بڑی خوشی دیدی اور وہ اُمید سے ہو گئیں وقت کسطرح گزرا پتا ہی نہ چلا ساری حویلی خوشیوں سے جھوم اٹھی جب اللہ نے تاشفین صاحب کے گھر اپنی رحمت اتاری صوفی صاحب کو بلایا گیا اُنہوں نے ننھی پری کے کان میں اذان دی اور اُس کا نام کنول رکھا اور ساتھ ہی صوفی صاحب نے زینت بیگم کو دعا دی ایک نیک سیرت بیٹے کی اور ساتھ ہی وعدہ لیا کہ اگر اُن کی دُعا پوری ہوئی تو وُہ اُس کا نام یوسف رکھیں گے اور اُسے حافظ قرآن بنائیں گی اور اُسے باقاعدگی سے درگاہ کی خدمت کے لئے بھیجا کریں گے

کنول کی پیدائش کے بعد وقت گزرا اور کنول تین سال کی ہوئی تو زینت بیگم کو اللہ پاک نے صوفی صاحب کی دعا کے مطابق ایک خوبصورت بیٹا دیا جس کا نام اُنہوں نے یوسف رکھا اور تاشفین صاحب اُسے درگاہ لے کر گئے جہاں صوفی صاحب نے یوسف کو گٹھی دی اور اُس کے لئے دُعا کی صوفی صاحب اپنے علم سے سمجھ گئے تھے کہ یہ بچہ اپنی زِندگی میں بہت مشکل اُتار چڑھاؤ دیکھئے گا بس اتنا کہہ سکے کہ اللہ اسے ثابت قدم رکھے اور اپنی زندگی کے سبھی مشکل وقت جھیلنے کی طاقت دے اگر زندگی نے وفا کی تو ہم ضرور اِس کی مشکلات میں اِس کی مدد کریں گے جب تاشفین صاحب نے کُچھ پوچھنا چاہا تو صوفی صاحب نے صرف اتنا ہی جواب دیا ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں بتا سکتے اور کچھ عرصہ بعد جب یوسف محض تین سال کا تھا صوفی صاحب وفات پاگئے اور تمام راز بھی اپنے ساتھ ہی لے گئے یوسف کی والدہ اور گھر والے یوسف کے لئے بہت محتاط رہتے اور اُس کے نام پر ہر جمعرات درگاہ پر غریبوں کو کھانا کھلانے کا اہتمام بھی کرتے۔

جب یوسف پانچ سال کا ہُوا تو زینت بیگم اور تاشفین صاحب کو صوفی صاحب کا لیا ہوا وعدہ یاد آیا اور اسی وعدہ کے پیش نظر وہ یوسف کو مولوی نور محمّد کے پاس لائیں اور ساتھ آسیہ کو بھی لے کر آئیں آسیہ اُن کی نند اور یوسف کی پھپھو کی بیٹی تھی آسیہ کی ماں حاجرہ بیگم اپنے شوہر کو لے کر نور محل میں ہی رہنے آئی ہوئی تھیں کیونکہ اُن کی اُن کے سسرال والوں سے بنتی نہ تھی اس لئے وہ نور محل آگئیں تھیں۔

یہاں زینت بیگم کی نظر نور السحر پر پڑی اور وہ اُس کے حُسن اُسکی سحر انگیز آنکھوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں اور اُس سے بھی زیادہ اُس کی تلاوت اور آواز کی مٹھاس سے متاثر ہوئیں وہ مولوی صاحب سے خاص تاکید کر رہی تھیں کہ اُن کے بیٹے یوسف اور نند کی بیٹی آسیہ کو بھی اتنی ہی میٹھی تلاوت سکھائیں جیسی وہ اور زُلیخا کرتے ہیں۔

زینت بیگم کے منہ سے زُلیخا سُن کر نور السحر نے اُن کو فوراً ٹوکا کہ اُس کے بابا نے اُس کا نام نور السحر رکھا ہے اس لئے اُسے نور السحر سننا زیادہ پسند ہے جس پر وہ مُسکرا دیں اور اُس کی پیشانی چوم لی۔۔

یوسف اپنے نام کی طرح بہت ہی حسین اور پُرکشش تھا اور نہایت ہی بادب مہذب بچہ تھا۔

جلد ہی یوسف زُلیخا اور آسیہ کے درمیان بہت اچھی دوستی ہو گئی یوسف نورالسحر کو زُلیخا کہہ کر ہی پکارتا اور نور السحر اُسے شہزادے کہہ کر ہی پکارا کرتی تھی۔

یوسف اکثر مولوی صاحب کے گھر کھیلنے بھی آتا اور کبھی زُلیخا اُس کے گھر چلی جاتی یوسف کی شخصیت میں ایک کشش تھی جو زُلیخا کو اکثر متاثر کرتی تھی اور دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ کھیلنا بہت پسند تھا وقت گزرتا گیا اور یوسف زُلیخا اور آسیہ کی دوستی بھی وقت کے ساتھ اور گہری ہوتی گئی۔

اور نور السحر کو یوسف کا زُلیخا کہنا بُرا بھی نہیں لگتا تھا بلکہ اُسے اب اس نام سے لگاؤ ہو گیا تھا اور اُس کے بابا کے علاوہ سب اُسے اب زُلیخا ہی پکارتے تھے اور وہ اب ٹوکتی نہ تھی

مگر یوسف کو وہ اپنے علاوہ کسی اور کو شہزادہ پکارنے کی اجازت نہ دیتی تھی ایک بار ایک بچی نے پکارا تو زُلیخا نے اُسے بہت مارا۔۔۔

یوسف جب مدرسہ سے گھر جاتا تو راستہ میں ایک سفید کبوتر اُس کے ساتھ ساتھ رہتا اور جب وہ گھر پہنچ جاتا تو اُس کے گھر کی چھت پر مانوں ایسے گھومتا رہتا جیسے یوسف کا طواف کر رہا ہو اُس کا خیال کر رہا ہو اکثر راستہ میں کبھی اُس کے کندھے پر بیٹھ جاتا کبھی اُس کے اردگرد گھومتا رہتا اور رات کو بھی اکثر کمرے کی کھڑکی سے اُس کے پلنگ کے پاس آجاتا بہت بار تو اُس نے یوسف کو بہت سے نقصانات سے بچایا بھی بہو بیگم تو اسے اپنے بچے پر ربّ کی رحمت اور صوفی صاحب کی دعا سمجھتی تھیں اِس لئے اُنہوں نے کبھی کچھ نہیں کہا تھا اُس کبوتر کو اور نہ کسی کو کہنے دیتی تھیں۔

وقت گزرتا گیا اور سات سال کیسے گزرے پتا ہی نہیں چلا آسیہ تو اپنے والد اور والدہ کے ساتھ چلی گئی تھی اپنے آبائی گھر اور باقی کی تعلیم وہیں حاصل کی مگر یوسف نے مولوی صاحب سے قرآن حفظ کیا اور ساتھ ہی زُلیخا نے بھی علم دینیات اور ہر وہ نوری اور روحانی علم سیکھا جس میں اُس کے والد ماہر تھے یوسف جب بارہ سال کا ہُوا تو اُس کے والد تاشفین صاحب نے اُسے دینی تعلیم کے بعد دُنیاوی تعلیم کے لئے شہر بھیج دیا تھا اپنی بہن حاجرہ کے پاس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔

Share - janoon

Follow manoo to stay updated on their latest posts!

Follow

0 comments

Be the first to comment!

This post is waiting for your feedback.
Share your thoughts and join the conversation.