
مصنف : سید کمیل کاظمی
کتاب : زندگی کی گہرائیاں
کہانی : وقت ہمیثہ ایک جیسا نہیں رہتا
کردار
میاں
بیوی
فقیر
کہانی
ایک گھر میں دو میاں بیوی رہتے تھے۔ دونوں گھر میں اکیلے رہتے تھے۔دونوں میں بہت پیار تھا اور دونوں بہت ہی پیار محبت کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ ایک شام دونوں اپنے گھر کی بیٹھک میں بیٹھے ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ بیوی نے جا کر دروازہ کھولا۔ سامنے ایک فقیر کھڑا ہوا تھا۔
فقیر: میں نے ایک دن سے کچھ نہیں کھایا۔ آپ کو اللّٰہ کا واسطہ ہے ، میری مدد کیجئے۔
فقیر کو دیکھ کر بیوی بے اختیار بہت زور سے چیخی۔ بیوی کی چیخ سُن کر میاں چونک گیا اور بھاگتا ہوا باہر آیا۔ باہر آکر میاں نے فقیر کو دیکھا۔
میاں: (فقیر سے) آپ نے اِنھیں کیا کہا ہے؟
فقیر: میں نے تو صرف اِن سے اِتنا کہا ہے کہ میں نے ایک دن سے کچھ نہیں کھایا۔ آپ کو اللّٰہ کا واسطہ ہے ، میری مدد کیجئے۔
میاں: (بیوی سے) تم اِنھیں دیکھ کر چیخی کیوں؟
بیوی: کیوں کہ میں اِس اِنسان کو بہت اچھی طرح سے جانتی تھی اور ابھی میں نے اِسے پہچان لیا ہے۔
میاں: اچھا ، کون ہے یہ؟
بیوی: تُمھارے ساتھ میری دوسری شادی ہے اور یہ میرا پہلا شوہر ہے۔
میاں:(فقیر سے) کیا یہ سچ ہے؟
فقیر: ہاں ، یہ سچ ہے۔ یہ آپ سے پہلے میری بیوی رہ چکی ہے۔ ہم دونوں میں بہت پیار تھا اور ہم دونوں بہت پیار محبت کی زندگی گزار رہے تھے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ بس تقریباً ایک سال پرانی بات ہے۔
میاں: اکر آپ دونوں میں بہت پیار تھا تو پِھر آپ نے اِسے طلاق کیوں دی؟
فقیر خاموش رہتا ہے اور اپنی نظریں جُھکا لیتا ہے۔
بیوی: اِس نے مُجھے طلاق نہیں دی تھی بلکہ میں نے اِسے چھوڑا تھا۔
میاں: (بیوی سے) اگر تُمیں اِس سے بہت پیار تھا تو پِھر اِس نے ایسا کیا کیا کہ تُم نے اِسے چھوڑ دیا؟
بیوی: یہ کوئی ایک سال پرانی بات ہے۔ ایک شام ہم دونوں اپنے گھر کی بیٹھک میں بیٹھے ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے جا کر دروازے کھولا۔ سامنے ایک فقیر کھڑا تھا۔ اُس نے مجھ سے کہا کہ اُس نے ایک دن سے کچھ نہیں کھایا۔ میں اُسے کچھ پیسے اور اناج دینے لگی تھی لیکن اِس مغرور اِنسان نے مجھ سے پیسے اور اناج چھین کر واپس رکھ دیے اور اُس فقیر کو دھکے مار کر گھر سے باہر نکال دیا۔ میں نے اِسے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ یہ جو تم کر رہے ہو وہ غلط ہے لیکن اِس نے میری ایک نہ سُنی اور فقیر کو دھکے مار کر گھر سے باہر نِکال دیا۔ اُس دن کے بعد سے ہمارے گھر کے مالی حالات خراب ہی ہوتے چلے گئے۔ اِس کے کارخانے میں آگ لگ گئی اور گھر بھی بِک گیا۔ پِھر ایک وقت ایسا آیا کہ اِس کے پاس مجھے کِھلانے کے لئے نہ تو روٹی رہی اور نہ بارش اور دھوپ سے بچانے کے لئے چھت۔ آخر اِن حالات میں میں اِس کے ساتھ کیسے رہ سکتی تھی۔ اِس لیے میں نے اِسے چھوڑ دیا اور بعد میں میری تم سے شادی ہو گئی۔
میاں: (فقیر سے) یہ جو کہانی سُنا رہی ہے کیا یہ سچ ہے؟
فقیر: ہاں ، یہ سچ ہے۔
میاں: (بیوی سے) اِسے جہاں تک ہو سکے ، پیسے اور اناج دے دو اور ہاں ، اِس کہانی میں ایک اور بات کا اضافہ کر لو اور وہ یہ کہ میں ہی وہ فقیر ہوں جِسے اِس نے ایک سال پہلے دھکے مار کر گھر سے باہر نکالا تھا۔ اُس وقت میرے پاس ایک وقت کا کھانا بھی نہیں تھا اور آج میں ایک کارخانے کا مالک ہوں لیکن میرے میں غرور و تکبر کا نام و نشان تک نہیں ہے کیوں کہ میں یہ بات اچھے سے سمجھ گیا ہوں کہ وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔
وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا اور وقت کے ساتھ پوری کائنات کا نقشہ بدل جاتا ہے ، اِس لئے بُرے وقت میں صبر و شکر نہ چھوڑیں اور صبر و شکر کے ساتھ اپنے اچھے وقت کا اِنتظار کریں۔ اچھے وقت میں عاجزی نہ چھوڑیں اور غرور و تکبر سے دور رہئے کیوں کہ وقت بدلنے سے پہلے اطلاع نہیں دیتا۔
مثالیں
ایک انسان پاؤں سے ہزاروں کیڑے مار سکتا ہے لیکن ہزاروں انسان قبر میں کیڑوں کی خوراک بنتے ہیں۔
ایک درخت سے ہزاروں ماچس کی تیلیاں بن سکتی ہیں لیکن ایک ماچس کی تیلی ہزاروں درخت جلا سکتی ہے۔
ای انسان ہزاروں بندوقیں بنا سکتا ہے لیکن ایک بندوق ہزاروں انساوں کو مار سکتی ہے۔
ایک انسان درجنوں زمینوں کا مالک بن سکتا ہے لیکن ایک زمین درجنوں انسانوں کو دفنا سکتی ہے۔
پانی نے اربوں انسانوں کو زندہ رکھا ہوا ہے لیکن جب سیلاب آجاۓ تو یہی پانی کِتنے لوگوں کی موت کی وجہ بنتا ہے۔
ایک عمارت ہزاروں بم رکھ سکتی ہے لیکن ایک بم ہزاروں عمارتیں تباہ کر سکتا ہے۔
Syed Kumail Kazmiさんをフォローして最新の投稿をチェックしよう!
0 件のコメント
この投稿にコメントしよう!
この投稿にはまだコメントがありません。
ぜひあなたの声を聞かせてください。