تعلیم کا مقصد
معلومات کے وسیع ذخیرے کو علم نہیں کہا جا سکتا۔ ایسا فرد جس کے پاس معلومات تو بہت زیادہ ہوں لیکن وہ فکری و ثقافتی بحران کا شکار ہو، معاشرے کے لئے بے کار ثابت ہوتا ہے۔ لوگوں کو تعلیم دینے کا بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ افراد کو کسی خاص شعبے میں مہارت دلانے کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی اور فکری نشوونما بھی کی جائے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اصل ترقی فرد کی فکری ترقی ہوتی ہے۔ تعلیم کے اہم مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ یہ انسان کو ذہنی وسعت دیتی ہے۔ اسے غوروفکر کرنے اور تجربے کے ذریعے سچائی تک پہنچنے کے قابل بناتی ہے۔
جہاں تک فرد کی تربیت کا تعلق ہے تو اس میں ماں اور گھر کے ماحول کا کردار مرکزی نوعیت کا ہوتا ہے۔ ابتدائے بچپن میں کی گئی تربیت اور فراہم کیا گیا ماحول انسان کی ساری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر کوئی لڑکی یا لڑکا اپنے لڑکپن میں کوئی نمایاں حیثیت نہیں رکھتے یا ان میں قائدانہ صلاحیتوں کی کمی ہو تو اس بات کا امکان کافی کم ہوتا ہے کہ وہ آنے والے سالوں میں کوئی نمایاں کارکردگی دکھا پائیں گے۔ گو کہ شخصیت کے نظریات میں اس بات پہ اختلاف پایا جاتا ہے لیکن تجربات اور حقائق اس نقطے کی تائید کرتے ہیں کہ انسان کی نشوونما میں ماحول کے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جس انداز میں ہم تعلیم دیتے ہیں اس کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ سوائے جامد نظریات کے اور کچھ نہیں دیتی۔ ایسی تعلیم نقصان دہ ہی نہیں بے کار بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پڑھے لکھے اور قدرے کم تعلیم یافتہ افراد کے رویوں اور نظریات میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔ تاریخ میں جتنے بھی فکری انقلاب آئے ہیں ان سب میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ ان سب نے جامد نظریات کو چیلنج کیا اور انہیں رد کیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ذہنی بنجر پن کا تدارک کیسے کیا جائے۔ ماہرین کی اکثریت یہ رائے دیتی ہے کہ بچوں کو زیادہ مضامین نہیں پڑھانے چاہیں۔ تھوڑا پڑھائیں لیکن جو پڑھائیں اسے اس انداز سے پڑھائیں کہ وہ چیزیں بچے کے تصورات کو واضح کریں اور اسے سوچنے کی صحیح سمت کا شعور دیں۔ ابتدأ سے ہی بچے کو اس انداز سے پڑھایا جائے کہ وہ خود چیزیں دریافت کرے اور اس دریافت کی خوشی سے لطف اٹھائے۔ ماضی پرستی ایک غیر سنجیدہ رویہ ہے لہٰذا بچوں کو ماضی کے بارے میں اتنا ہی پڑھایا جائے۔
Haji Akbarさんをフォローして最新の投稿をチェックしよう!
0 件のコメント
この投稿にコメントしよう!
この投稿にはまだコメントがありません。
ぜひあなたの声を聞かせてください。